(مکمل قرآن پاک اردو ترجمہ اور تفسیرکے ساتھ، پارہ نمبر:1، سورۃالبقرہ نمبر:02)

      🥀بسم اللہ الرحمن الرحیم🥀

مقام نزول: 
حضرت   عبداللہ   بن عباس   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا   کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔  (اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔)   (  خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ،   ۱ / ۱۹)  
رکوع اور آیات کی تعداد:  
اس سورت میں 40 رکوع اور286آیتیں ہیں۔   
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے کی وجہ:  
عربی میں گائے کو ’’   بَقَرَۃٌ  ‘‘کہتے ہیں اور اس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔   
احادیث میں اس سورت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے 5فضائل درج ذیل ہیں :  
(1) …  حضرت ابو اُمامہ باہلی   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ   سے روایت ہے،نبی کریم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔  (  مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ،   ص  ۴۰۳  ، الحدیث:   ۲۵۲(۸۰۴))  
(2)…  حضرت ابو ہریرہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،حضور پر نور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی جاتی ہے۔  (  مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔الخ، ص  ۳۹۳  ،الحدیث  :     ۲۱۲(۷۸۰))  
(3) …  حضرت ابو مسعود   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ   سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(ناگہانی مصائب سے) کافی ہوں گی۔  (  بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ،   ۳ / ۴۰۵  ، الحدیث:   ۵۰۰۹)  
(4) …  حضرت ابو ہریرہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،حضور اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’ ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور قرآن کی بلندی ’’سورہ ٔ بقرہ‘‘ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں کی سردار ہے اور وہ( آیت) آیت الکرسی ہے۔  (  ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،   ۴ / ۴۰۲  ، الحدیث:   ۲۸۸۷)  
(5)…  حضرت سہل بن سعد ساعدی   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،حضور انور  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے دن کے وقت اپنے گھر میں ’’سورۂ بقرہ‘‘ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا۔  (  شعب الایمان، التاسع من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ذکر سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ،   ۲ / ۴۵۳  ، الحدیث:   ۲۳۷۸)



یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ    عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،   اللہ    تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام   عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے    گئے ہیں:   
(1) …    قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔   
(2) …    قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔   
(3) …   قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔   
(4) …   حضرت آدم   عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔   
(5) …   خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم    عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔   
(6) …   اس سورت میں نبی کریم    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔   
(7) …    عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے،    اللہ    تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،   اللہ    تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔   
(8) …   تابوت سکینہ ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔   
(9) …   مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر    عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   کی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔   
(10) …   حضرت ابراہیم   عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر    اللہ    تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔   

(11) …   اس سورت کے آخر میں    اللہ    تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔ 


سورۂ فاتحہ کے ساتھ مناسبت:
’’سورۂ بقرہ‘‘ کی اپنے سے ماقبل سورت’’فاتحہ‘‘ کے ساتھ مناسبت یہ ہے کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ میں مسلمانوں کو یہ دعا مانگنے کی تعلیم دی گئی تھی’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ‘‘  یعنی اے  اللہ !ہم کو سیدھا راستہ چلا۔ فاتحہ:  ۵)  اور ’’سورۂ بقرہ‘‘ میں کامل ایمان والوں کے اوصاف ،مشرکین اور منافقین کی نشانیاں ،یہودیوں اور عیسائیوں کا طرز عمل ، نیز معاشرتی زندگی کے اصول اور احکام ذکر کر کے مسلمانوں کے لئے’’ صراطِ مستقیم ‘‘کو بیان کیا گیا ہے ۔

 بسم اللہ الرحمن الرحیم                                       (سورۃالبقرہ، آیت نمبر:2'1)                               الٓمّٓۚ(۱)ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ  ۚۛ- فِیْهِ ۚۛ-هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ (۲) 

     ترجمۂ کنز العرفان ث        
الم۔ وہ بلند رتبہ کتاب جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ۔اس میں ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔
 تفسیر صراط الجنان          
                {    الٓمّٓ    :}قرآن پاک کی 29سورتوں  کے شروع میں  اس طرح کے حروف ہیں  ، انہیں ’’حروفِ     مُقَطَّعَات    ‘‘کہتے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے قوی قول یہ ہے کہ یہ حروف     اللہ     تعالیٰ کے راز ہیں اور متشابہات میں سے ہیں ، ان کی مراد     اللہ      تعالیٰ جانتاہے اور ہم ان کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔    (    خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱    ،     ۱ / ۲۰،     الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثالث والاربعون،     ۲ / ۳۰۸    ، ملتقطاً    )        
                 حروفِ مُقَطَّعَات   کا علم     اللہ     تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو حاصل ہے یانہیں :        
یہاں یہ بات یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کو بھی حروف مقطعات کا علم عطا فرمایا ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں :قاضی بیضاوی) رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ    )         ’’    اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ    ‘‘         میں سورتوں کے ابتدائیہ یعنی حروف مقطعات کے بارے میں فرماتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ یہ ایک راز ہے جسے     اللہ     تعالیٰ نے اپنے علم کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے۔تقریبا ًایسی ہی روایات خلفاء اربعہ اور دیگر صحابہ کرام      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ     سے بھی(منقول) ہیں اور ممکن ہے کہ صحابہ کرام      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ     نے یہ مراد لیا ہو کہ یہ حروف     اللہ     تعالیٰ اور اس کے رسول          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کے درمیان راز و نیاز ہیں اور یہ ایسے اسرار و رموز ہیں جنہیں دوسرے کو سمجھانامقصود نہیں۔اگر یہ راز حضور اقدس          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ      کو معلوم نہ ہو ں تو پھر غیر مفید کلام سے خطاب کرنا لازم آئے گا اور یہ بعید ہے۔    (    تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱    ،     ۱ / ۹۳)        
امام خفاجی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں ’’(    اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ     کے)بعض نسخوں میں ’’    اِسْتَأْثَرَہُ اللہُ بِعِلْمِہٖ    ‘‘ ہے اور(    اِسْتَأْثَرَہُ     کی) ضمیر رسول     اللہ      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ      کے لئے ہے اور ’’با‘‘ مقصور پر داخل ہے، یعنی     اللہ      تعالیٰ نے حضور اقدس          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ      کو اپنے علم سے (خاص کرکے)معزز و مکرم فرمایایعنی مقطعات کاعلم صرف     اللہ      تعالیٰ اور ا س کے رسول          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کو حاصل ہے۔اس معنی کو اکثر سلف اور محققین نے پسند فرمایا ہے۔    (    عنایۃ القاضی،          البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱    ،     ۱ / ۱۷۸    ، مختصراً، انباء الحی، مطلب المتشابہات معلومۃ النبی    صلی اللہ تعالی علیہ وسلم    ، ص    ۵۲-۵۳)        
علامہ محمود آلوسی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ     فرماتے ہیں ’’ غالب گمان یہ ہے کہ حروف مقطعات مخفی علم اور سربستہ راز ہیں جن کے ادراک سے علماء عاجز ہیں جیسا کہ حضرت     عبد         اللہ     بن عباس      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا    نے فرمایا، اور خیالات اس تک پہنچنے سے قاصر ہیں اور اسی وجہ سے حضرت ابو بکر صدیق      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     نے فرمایا:ہر کتاب کے راز ہوتے ہیں اور قرآن مجید کے راز سورتوں کی ابتداء میں آنے والے حروف ہیں۔اورامام شعبی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں : یہ حروف     اللہ     تعالیٰ کے اسرار ہیں تو ان کاکھوج نہ لگاؤ کیونکہ رسول     اللہ      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کے بعد ان کی معرفت آپ          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کے علوم کے وارث اولیاء کرام کو ہے،انہیں اسی بارگاہ سے (ان اسرار کی) معرفت حاصل ہوتی ہے اور کبھی یہ حروف خود انہیں اپنا معنی بتا دیتے ہیں جیسے نبی کریم          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کے ہاتھوں میں کنکریوں نے تسبیح کے ذریعے کلام کیا اور گوہ اور ہرن حضور اقدس       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     سے ہم کلام ہوئے جیسا کہ ہمارے آباؤ اجداد یعنی اہلِ بیت      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ     سے یہ بات (حروف ِ مقطعات کا علم ہونا) صحت سے ثابت ہے بلکہ جب کوئی بندہ قرب ِ نوافل کے درخت کا پھل چنتا ہے تو وہ ان حروف کو اور اس کے علاوہ کے علم کو     اللہ      تعالیٰ کے علم کے ذریعے جان لیتا ہے۔اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اگر ان کا کوئی مفہوم نہ ہو تو ان کے ساتھ خطاب مہمل خطاب کی طرح ہو گا۔‘‘یہ بات ہی مہمل ہے اگرچہ اسے کہنے والاکوئی بھی ہو کیونکہ اگر تمام لوگوں کو سمجھانا مقصود ہو تو یہ ہم تسلیم نہیں کرتے اور اگر صرف ان حروف کے مخاطب کو سمجھانا مقصود ہو اور وہ یہاں     رسول         اللہ              صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ      ہیں تو اس میں کوئی مومن شک نہیں کر سکتا (کہ سرکار دو عالم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     ان کا معنیٰ جانتے ہیں )اور اگر اس سے بعض لوگوں کو سمجھانا مقصود ہے تو اربابِ ذوق کو ان کی معرفت حاصل ہے اور وہ     اَلْحَمْدُ لِلّٰہ     امتِ محمدیہ میں کثیر ہیں اور ہم جیسوں کا ان کی مراد نہ جاننا نقصان دہ نہیں کیونکہ ہم تو ان بہت سے افعال کی حکمت بھی نہیں جانتے جن کے ہم مکلف ہیں جیسے جمرات کی رمی کرنا صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا،رمل اور اضطباع وغیرہ اور ان جیسے احکام میں اطاعت کرنا سرِ تسلیم خم کرنے کی انتہا پر دلالت کرتا ہے۔    (    روح المعانی، البقرۃ، تحت الآیۃ    :     ۱    ،     ۱ / ۱۳۶-۱۳۷)        
{    لَا رَیْبَ    : کوئی شک نہیں۔}آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک وصف بیان کیاگیا کہ یہ ایسی بلند شان اور عظمت و شرف والی کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ شک اس چیز میں ہوتا ہے جس کی حقانیت پر کوئی دلیل نہ ہو جبکہ قرآن پاک اپنی حقانیت کی ایسی واضح اور مضبوط دلیلیں رکھتا ہے جو ہر صاحب ِ انصاف اورعقلمند انسان کو اس بات کا یقین کرنے پر مجبور کردیتی ہیں کہ یہ کتاب حق ہے اور     اللہ      تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہے ،تو جیسے کسی اندھے کے انکار سے سورج کا وجود مشکوک نہیں ہوتا ایسے ہی کسی بے عقل مخالف کے شک اور انکار کرنے سے یہ کتاب مشکوک نہیں ہوسکتی۔        
{    هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ     :ڈرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔} آیت کے اس حصے میں قرآن مجید کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ یہ کتاب ان تمام لوگوں کو حق کی طرف ہدایت دیتی ہے جو     اللہ      تعالیٰ سے ڈرتے ہیں اور جو لوگ نہیں ڈرتے ، انہیں قرآن پاک سے ہدایت حاصل نہیں ہوتی۔یاد رہے کہ قرآن پاک کی ہدایت و رہنمائی اگرچہ مومن اور کافر ہر شخص کے لیے عام ہے جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں     اللہ      تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’    هُدًى لِّلنَّاسِ    ‘‘ یعنی قرآن مجید تمام لوگوں کیلئے ہدایت ہے۔لیکن چونکہ قرآن مجید سے حقیقی نفع صرف متقی لوگ حاصل کرتے ہیں اس لیے یہاں ’’    هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ    ‘‘ یعنی ’’ متقین کیلئے ہدایت‘‘ فرمایا گیا۔    (     ابو سعود، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ،     ۱ / ۳۲)        
تقویٰ کا معنی:         
تقویٰ کا معنی ہے:’’ نفس کو خوف کی چیز سے بچانا۔‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام  سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو جیسے کفر وشرک،کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا،حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اوربزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔ (    مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ، ص    ۱۹    ، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ،     ۱ / ۲۲    ، ملتقطاً    )             
تقویٰ کے فضائل:        
قرآن مجید اور احادیث میں تقویٰ حاصل کرنے اور متقی بننے کی ترغیب اور فضائل بکثرت بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ     اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:        
’’     یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اتَّقُوا  اللّٰهَ  حَقَّ  تُقٰتِهٖ  وَ  لَا  تَمُوْتُنَّ  اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ    ‘‘     (    اٰل عمران:     ۱۰۲)        
ترجمہ    ٔ      کنزالعرفان:    اے ایمان والو!    اللہ     سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ضرور تمہیں موت صرف اسلام کی حالت میں آئے۔        
اور ارشاد فرمایا:        
’’    یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ(    ۷۰)         یُّصْلِحْ لَكُمْ اَعْمَالَكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا    ‘‘    (    احزاب:     ۷۰-۷۱)        
ترجمہ    ٔ      کنزالعرفان:    اے ایمان والو!       اللہ     سے ڈرو اور سیدھی بات کہاکرو۔       اللہ     تمہارے اعمال تمہارے لیے سنواردے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور جو     اللہ     اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔        
حضرت عطیہ سعدی     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے،رسول کریم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا:’’کوئی بندہ اُس وقت تک متقین میں شمار نہیں ہو گا جب تک کہ وہ نقصان نہ دینے والی چیز کو کسی دوسری نقصان والی چیز کے ڈر سے نہ چھوڑ دے۔    (یعنی کسی جائز چیز کے ارتکاب سے ممنوع چیز تک نہ پہنچ جائے۔ )    (    ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ،     ۱۹-    باب ،     ۴ / ۲۰۴-۲۰۵    ، الحدیث:     ۲۴۵۹)        
حضرت ابو سعید     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے،نبی کریم      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رب      عَزَّوَجَلَّ     ایک ہے ، تمہارا باپ ایک ہے اور کسی عربی کوعجمی پر فضیلت نہیں ہے نہ عجمی کو عربی پر فضیلت ہے ، نہ گورے کو کالے پر فضیلت ہے ، نہ کالے کو گورے پر فضیلت ہے مگر صرف تقویٰ سے۔    (    معجم الاوسط،     ۳ / ۳۲۹    ، الحدیث:     ۴۷۴۹)        
حضرت انس     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ    سے روایت ہے،حضور پر نور       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا: ’’تمہارا رَب      عَزَّوَجَلَّ     ارشاد فرماتا ہے:اس بات کا مستحق میں ہی ہوں کہ مجھ سے ڈرا جائے اور جو مجھ سے ڈرے گا تو میری شان یہ ہے کہ میں اسے بخش دوں۔     (    دارمی، کتاب الرقاق، باب فی تقوی اللہ،     ۲ / ۳۹۲    ، الحدیث:     ۲۷۲۴)        
علماء نے ’’تقویٰ ‘‘کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں جیسے عام لوگوں کا تقویٰ ’’ایمان لا کر کفر سے بچنا‘‘ہے، متوسط لوگوں کا تقویٰ ’’احکامات کی پیروی کرنا‘‘ اور’’ ممنوعات سے رکنا ‘‘ہے اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا ہے جو     اللہ      تعالیٰ سے غافل کرے۔‘‘    (     جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ،     ۱ / ۱۷)        
اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان     عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ     کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں : (    ۱)     کفر سے بچنا۔ (    ۲)     بدمذہبی سے بچنا۔ (    ۳)     کبیرہ گناہ سے بچنا۔ (    ۴)     صغیرہ گناہ سے بچنا۔(    ۵)     شبہات سے پرہیز کرنا۔  (    ۶)     نفسانی خواہشات سے بچنا۔ (    ۷)     اللہ      تعالیٰ سے دورلے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا، اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے ۔    (    خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ، ص    ۴    ، ملخصاً    )     اللہ     تعالیٰ ہمیں متقی اور پرہیز گار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین   

(آیت نمبر:02)

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)

      ترجمۂ کنز العرفان           
وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان            
{     اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ     :وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’     اَلْمُفْلِحُوْنَ     ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا،قیامت کا قائم ہونا،اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔      (     مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ، ص     ۲۰     ، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۱۴     ، ملتقطاً     )     
اس آیت میں ’’ایمان‘‘ اور’’ غیب‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس لئے ان سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھیں !     
(1)…’’ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین (میں داخل) ہیں اور کسی ایک ضرورت ِدینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔     (بہارِ شریعت،      ۱ / ۱۷۲)     
(2)…’’ عمل‘‘ ایمان میں داخل نہیں ہوتے اسی لیے قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عمل کا جداگانہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے اس آیت میں بھی ایمان کے بعدنماز و صدقہ کا ذکرعلیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔     
(3)…’’غیب ‘‘وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اورہم اپنے حواس جیسے دیکھنے، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں۔     
(4)…غیب کی دو قسمیں ہیں : (     ۱)      جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو۔یہ علم غیب ذاتی ہے اور     اللہ       تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں      غیرُاللہ      سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔(     ۲)      جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے      اللہ      تعالیٰ کی ذات و صفات ،گزشتہ انبیاء کرام     عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم۔یہ سب      اللہ       تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی      غیرُاللہ     کیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں      اللہ      تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے۔     (     تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۲۶     ، ملخصاً     )     
(5)…     اللہ      تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کیلئے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے۔     
(6)…      اللہ      تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام           عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      اور اولیاء عِظام      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم     پر ’’غیب ‘‘کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے۔ اس موضوع پرمزید کلام سورہ ٔ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 179 کی تفسیر میں مذکور ہے ۔     
{     وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ     :     اور نماز قائم کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کو     غیرُاللہ     کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔     (     بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۱۵-۱۱۷     ، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۸     ، ملتقطاً     )     
            قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورہ ٔ مومنون میں      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’      قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(     ۱)      الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۱-۲)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔     
اسی سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ     
’’      وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۹)     
ترجمہ ٔ کنزالعرفان:     اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔     
 اور ان اوصاف کے حامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:     
’’      اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(     ۱۰)      الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۱۰-۱۱)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:      یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔     
 نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’     اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا     ‘‘     (     النساء:      ۱۴۲)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں      اللہ      کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور      اللہ      کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔     
اور ارشاد فرمایا:     
’’     فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(     ۵۹)      اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا     ‘‘     (     مریم:      ۵۹-۶۰)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔     
حضرت عثمانِ غنی      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      فرماتے ہیں :سرکار دو عالم      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میرے اِس وضو کی طرح وُضو کیا پھر اس طرح دورکعت نماز پڑھی کہ ان میں خیالات نہ آنے دے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔     (     بخاری، کتاب الوضو ء، باب الوضو ء ثلاثًا ثلاثًا،      ۱ / ۷۸     ، الحدیث:      ۱۵۹)     
حضرت عقبہ بن عامر     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ       سے روایت ہے،سید المُرسَلین     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا:’’جوبھی مسلمان اچھے طریقے سے وُضو کرتا ہے ،پھرکھڑے ہو کراس طرح دو رکعت نمازپڑھتا ہے کہ اپنے دل اور چہرے سے متوجہ ہوکر یہ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔     (     مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحبّ عقب الوضو ء، ص     ۱۴۴     ، الحدیث:      ۱۷(۲۳۴))     
حضرت      عبداللہ      بن عمرو           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا      سے روایت ہے،حضور پر نور     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔     (     مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص،      ۲ / ۵۷۴     ، الحدیث:      ۶۵۸۷)     
حضرت ابو سعید خدری           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      سے روایت ہے، حضوراقدس     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کرنماز چھوڑی تو جہنم کے اُس دروازے پر اِس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔     (     حلیۃ الاولیاء،      ۷ / ۲۹۹     ، الحدیث:      ۱۰۵۹۰)     
{     وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ     : اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ      اللہ      تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ      اللہ       تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یااس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اورمساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔      
مال خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لیا جائے:     
آیت میں فرمایا گیا کہ جو ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہئے ۔اس چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’     وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا     ‘‘     (     بنی اسرآئیل:      ۲۹)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔     
اورکامل ایمان والوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:     
’’     وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا     ‘‘     (     فرقان:      ۶۷)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔  

( آیت نمبر:03)

الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)

      ترجمۂ کنز العرفان           
وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان            
{     اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ     :وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’     اَلْمُفْلِحُوْنَ     ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا،قیامت کا قائم ہونا،اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔      (     مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ، ص     ۲۰     ، تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۱۴     ، ملتقطاً     )     
اس آیت میں ’’ایمان‘‘ اور’’ غیب‘‘ کا ذکر ہوا ہے اس لئے ان سے متعلق چند اہم باتیں یاد رکھیں !     
(1)…’’ایمان‘‘ اسے کہتے ہیں کہ بندہ سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات دین (میں داخل) ہیں اور کسی ایک ضرورت ِدینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں۔     (بہارِ شریعت،      ۱ / ۱۷۲)     
(2)…’’ عمل‘‘ ایمان میں داخل نہیں ہوتے اسی لیے قرآن پاک میں ایمان کے ساتھ عمل کا جداگانہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے اس آیت میں بھی ایمان کے بعدنماز و صدقہ کا ذکرعلیحدہ طور پر کیا گیا ہے۔     
(3)…’’غیب ‘‘وہ ہے جو ہم سے پوشیدہ ہو اورہم اپنے حواس جیسے دیکھنے، چھونے وغیرہ سے اور بدیہی طور پر عقل سے اسے معلوم نہ کرسکیں۔     
(4)…غیب کی دو قسمیں ہیں : (     ۱)      جس کے حاصل ہونے پر کوئی دلیل نہ ہو۔یہ علم غیب ذاتی ہے اور     اللہ       تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے اورجن آیات میں      غیرُاللہ      سے علمِ غیب کی نفی کی گئی ہے وہاں یہی علمِ غیب مراد ہوتا ہے ۔(     ۲)      جس کے حاصل ہونے پر دلیل موجود ہو جیسے      اللہ      تعالیٰ کی ذات و صفات ،گزشتہ انبیاء کرام     عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      اور قوموں کے احوال نیز قیامت میں ہونے والے واقعات و غیرہ کا علم۔یہ سب      اللہ       تعالیٰ کے بتانے سے معلوم ہیں اور جہاں بھی      غیرُاللہ     کیلئے غیب کی معلومات کا ثبوت ہے وہاں      اللہ      تعالیٰ کے بتانے ہی سے ہوتا ہے۔     (     تفسیر صاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۲۶     ، ملخصاً     )     
(5)…     اللہ      تعالیٰ کے بتائے بغیر کسی کیلئے ایک ذرے کا علمِ غیب ماننا قطعی کفر ہے۔     
(6)…      اللہ      تعالیٰ اپنے مقرب بندوں جیسے انبیاء کرام           عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      اور اولیاء عِظام      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِم     پر ’’غیب ‘‘کے دروازے کھولتا ہے جیسا کہ خود قرآن و حدیث میں ہے۔ اس موضوع پرمزید کلام سورہ ٔ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 179 کی تفسیر میں مذکور ہے ۔     
{     وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ     :     اور نماز قائم کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نمازپڑ ھی جائے۔نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اورنماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کو     غیرُاللہ     کے خیال سے فارغ کرکے ظاہروباطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔     (     بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۱۵-۱۱۷     ، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:      ۳     ،      ۱ / ۱۸     ، ملتقطاً     )     
            قرآنِ مجید اور احادیث میں نماز کے حقوق کی ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ سورہ ٔ مومنون میں      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’      قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(     ۱)      الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۱-۲)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     بیشک(وہ) ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔     
اسی سورت میں ایمان والوں کے مزید اوصاف بیان کرنے کے بعد ان کا ایک وصف یہ بیان فرمایا کہ     
’’      وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۹)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔     
 اور ان اوصاف کے حامل ایمان والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:     
’’      اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(     ۱۰)      الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ     ‘‘     (     مؤمنون:      ۱۰-۱۱)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:      یہی لوگ وارث ہیں۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔     
 نماز میں سستی کرنے والوں اورنمازیں ضائع کرنے والوں کے بارے میں      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’     اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا     ‘‘     (     النساء:      ۱۴۲)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     بیشک منافق لوگ اپنے گمان میں      اللہ      کو فریب دینا چاہتے ہیں اور وہی انہیں غافل کرکے مارے گا اور جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں توبڑے سست ہوکر لوگوں کے سامنے ریاکاری کرتے ہوئے کھڑے ہوتے ہیں اور      اللہ      کو بہت تھوڑا یاد کرتے ہیں۔     
اور ارشاد فرمایا:     
’’     فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(     ۵۹)      اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـا     ‘‘     (     مریم:      ۵۹-۶۰)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غَی سے جاملیں گے مگر جنہوں نے توبہ کی اور ایمان لائے اور نیک کام کئے تو یہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔     
حضرت عثمانِ غنی      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      فرماتے ہیں :سرکار دو عالم      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا: ’’جس نے میرے اِس وضو کی طرح وُضو کیا پھر اس طرح دورکعت نماز پڑھی کہ ان میں خیالات نہ آنے دے تو اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے ۔     (     بخاری، کتاب الوضو ء، باب الوضو ء ثلاثًا ثلاثًا،      ۱ / ۷۸     ، الحدیث:      ۱۵۹)     
حضرت عقبہ بن عامر     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ       سے روایت ہے،سید المُرسَلین     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا:’’جوبھی مسلمان اچھے طریقے سے وُضو کرتا ہے ،پھرکھڑے ہو کراس طرح دو رکعت نمازپڑھتا ہے کہ اپنے دل اور چہرے سے متوجہ ہوکر یہ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تواس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے ۔     (     مسلم، کتاب الطہارۃ، باب الذکر المستحبّ عقب الوضو ء، ص     ۱۴۴     ، الحدیث:      ۱۷(۲۳۴))     
حضرت      عبداللہ      بن عمرو           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا      سے روایت ہے،حضور پر نور     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا:’’جس نے نماز پر مداومت کی تو قیامت کے دن وہ نماز اس کے لیے نور ،برہان اور نجات ہو گی اور جس نے نماز کی محافظت نہ کی تو اس کے لیے نہ نور ہے، نہ برہان ،نہ نجات اور وہ قیامت کے دن قارون ، فرعون ، ہامان اور اُبی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔     (     مسند امام احمد ، مسند عبد اللہ بن عمرو بن العاص،      ۲ / ۵۷۴     ، الحدیث:      ۶۵۸۷)     
حضرت ابو سعید خدری           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      سے روایت ہے، حضوراقدس     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا:’’جس نے جان بوجھ کرنماز چھوڑی تو جہنم کے اُس دروازے پر اِس کا نام لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔     (     حلیۃ الاولیاء،      ۷ / ۲۹۹     ، الحدیث:      ۱۰۵۹۰)     
{     وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ     : اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں ) خرچ کرتے ہیں۔}آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ      اللہ      تعالیٰ کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ      اللہ       تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یااس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اورمساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیاء کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔      
مال خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لیا جائے:     
آیت میں فرمایا گیا کہ جو ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں ،اس سے معلوم ہوا کہ راہِ خدا میں مال خرچ کرنے میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ اتنا زیادہ مال خرچ کر دیا جائے کہ خرچ کرنے کے بعد آدمی پچھتائے اور نہ ہی خرچ کرنے میں کنجوسی سے کام لیا جائے بلکہ اس میں اعتدال ہونا چاہئے ۔اس چیز کی تعلیم دیتے ہوئے ایک اور مقام پر      اللہ      تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’     وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا     ‘‘     (     بنی اسرآئیل:      ۲۹)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھو اور نہ پورا کھول دو کہ پھر ملامت میں ، حسرت میں بیٹھے رہ جاؤ۔     
اورکامل ایمان والوں کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:     
’’     وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا     ‘‘     (     فرقان:      ۶۷)     
ترجمہ     ٔ     کنزالعرفان:     اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں۔  

(آیت نمبر:04) 

وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)
       ترجمۂ کنز العرفان             
اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا اور جو تم سے پہلے نازل کیا گیا اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان              
{      وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ      :      اور وہ ایمان لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا ۔ }اس آیت میں اہلِ کتاب کے وہ مومنین مراد ہیں جو اپنی کتاب پر اور تمام پچھلی آسمانی کتابوں پراور انبیاء       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قرآن پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’      مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ             ‘‘ سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے۔      (      جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:       ۴      ،       ۱ / ۱۹      ، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:       ۴      ، ص      ۲۱      ، ملتقطاً      )      
اللہ       تعالیٰ کی کتابوں وغیرہ پر ایمان لانے کا شرعی حکم:      
یاد رکھیں کہ جس طرح قرآن پاک پر ایمان لانا ہر مکلف پر’’فرض‘‘ ہے اسی طرح پہلی کتابوں پر ایمان لانا بھی ضروری ہے جوگزشتہ انبیاء کرام       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      پر نازل ہوئیں البتہ ان کے جو احکام ہماری شریعت میں منسوخ ہو گئے ان پر عمل درست نہیں مگر پھر بھی ایمان ضروری ہے مثلاً پچھلی کئی شریعتوں میں بیت المقدس قبلہ تھالہٰذا اس پر ایمان لانا تو ہمارے لیے ضروری ہے مگر عمل یعنی نماز میں بیت المقدس کی طرف منہ کرنا جائز نہیں ، یہ حکم منسوخ ہوچکا۔ نیز یہ بھی یاد رکھیں کہ قرآن کریم سے پہلے جو کچھ       اللہ        تعالیٰ نے اپنے انبیاء       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام             پر نازل فرمایا ان سب پر اجمالاً ایمان لانا ’’فرض عین‘‘ ہے یعنی یہ اعتقاد رکھا جائے کہ       اللہ        تعالیٰ نے گزشتہ انبیاء       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام      پر کتابیں نازل فرمائیں اور ان میں جو کچھ بیان فرمایا سب حق ہے۔ قرآن شریف پریوں ایمان رکھنا فرض ہے کہ ہمارے پاس جو موجود ہے اس کا ایک ایک لفظ       اللہ       تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برحق ہے بقیہ تفصیلاً جاننا ’’فرضِ کفایہ‘‘ ہے لہٰذا عوام پر اس کی تفصیلات کا علم حاصل کرنا فرض نہیں جب کہ علماء موجود ہوں جنہوں نے یہ علم حاصل کرلیا ہو۔       
{      وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ      :اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔} یعنی متقی لوگ قیامت پر اور جو کچھ اس میں جزاوحساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کا آخرت کے متعلق عقیدہ درست نہیں کیونکہ ان میں سے ہرایک کا یہ عقیدہ تھا کہ ان کے علاوہ کوئی جنت میں داخل نہیں ہوگاجیسا کہ سورہ بقرہ آیت 111میں ہے اور خصوصاً یہودیوں کا عقیدہ تھا کہ ہم اگرجہنم میں گئے تو چند دن کیلئے ہی جائیں گے، اس کے بعد سیدھے جنت میں جیسا کہ سورہ بقرہ آیت 80 میں ہے۔      (      جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ:       ۴      ،       ۱ / ۱۹      ، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:       ۴      ، ص      ۲۱      ، ملتقطاً      )      
اس طرح کے فاسد اور من گھڑت خیالات جب ذہن میں جم جاتے ہیں تو پھر ان کی اصلاح بہت مشکل ہوتی ہے۔

(آیت نمبر:05)

اُولٰٓئكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓئكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)
    ترجمۂ کنز العرفان       
یہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان        
{   هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ   : وہی فلاح پانے والے ہیں۔}    یعنی جن لوگوں میں بیان کی گئی صفات پائی جاتی ہیں وہ اپنے رب    عَزَّوَجَلَّ       کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اوریہی لوگ جہنم سے نجات پاکر اور جنت میں داخل ہو کر کامل کامیابی حاصل کرنے والے ہیں۔   (   خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:    ۵   ،    ۱ / ۲۵)   

اصل کامیابی ہر مسلمان کو حاصل ہے:   

یاد رہے کہ اس آیت میں فلاح سے مراد ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔   

(آیت نمبر:06) 


اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ ءَاَنْذَرْتَهُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْهُمْ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۶)

     ترجمۂ کنز العرفان         
بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ ایمان نہیں لائیں گے۔
 تفسیر صراط الجنان          
{    اِنَّ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا سَوَآءٌ عَلَیْهِمْ    :بیشک وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے ان کے لئے برابر ہے ۔}چونکہ ٹھنڈک کی پہچان گرمی سے ، دن کی پہچان رات سے اور اچھائی کی پہچان برائی سے ہوتی ہے اسی لئے اہل ایمان کے بعدکافروں اور منافقوں کے افعال اور ان کے انجام کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ ان کی پہچان بھی واضح ہوجائے اور آدمی کے سامنے تمام راہیں نمایاں ہوجائیں۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے پیارے حبیب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، وہ لوگ جن کی قسمت میں کفر ہے جیسے ابو جہل اور ابو لہب وغیرہ کفار،ان کے لئے برابر ہے کہ آپ انہیں     اللہ         تعالیٰ     کے احکامات کی مخالفت کرنے کے عذاب سے ڈرائیں یا نہ ڈرائیں ،یہ کسی صورت ایمان نہیں لائیں گے کیونکہ ان کے بارے میں     اللہ         تعالیٰ     کو پہلے سے ہی معلوم ہے کہ یہ لوگ ایمان سے محروم ہیں۔    (    جلالین مع جمل،          البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۶    ،     ۱ / ۲۰-۲۱)    
کفر کی تعریف اورازلی کافروں کو تبلیغ کرنے کا حکم دینے کی وجہ:    
            یہاں دو باتیں ذہن نشین رکھیں :    
(1)… ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار یا تحقیر و استہزاء کرنا کفر ہے اورضروریاتِ دین ، اسلام کے وہ احکام ہیں ،جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے     اللہ      تعالیٰ کی وحدانیت، انبیاء کرام         عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام         کی نبوت، نماز، روزے ، حج، جنت،دوزخ ، قیامت میں اُٹھایا جانا وغیرہا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو علماء کے طبقہ میں شمار نہ کئے جاتے ہوں مگر علماء کی صحبت میں بیٹھنے والے ہوں اورعلمی مسائل کا ذوق رکھتے ہوں ،اس سے وہ لوگ مراد نہیں جو دور دراز جنگلوں پہاڑوں میں رہنے والے ہوں جنہیں صحیح کلمہ پڑھنا بھی نہ آتا ہو کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اِس دینی ضروری کو غیرضروری نہ کردے گا، البتہ ایسے لوگوں کے مسلمان ہونے کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ ضروریاتِ دین کاانکار کرنے والے نہ ہوں اور یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے اور ان سب پر اجمالاً ایمان لائے ہوں۔    (بہارِ شریعت،     ۱ / ۱۷۲-۱۷۳، ملخصاً)    
(2)… ایمان سے محروم کفار کے بارے میں معلوم ہونے کے باوجود انہیں تبلیغ کرنے کاحکم اس لئے دیاگیا تاکہ ان پر حجت پوری ہو جائے اور قیامت کے دن ان کے لئے کوئی عذر باقی نہ رہے۔    اللہ     تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :    
’’    رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَزِیْزًا حَكِیْمًا    ‘‘    (    النساء:     ۱۶۵)    
ترجمہ    ٔ    کنزالعرفان:    (ہم نے )    رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے     (بھیجے)    تاکہ رسولوں     (کو بھیجنے)     کے بعد     اللہ     کے یہاں لوگوں کے لئے کوئی عذر     (باقی )    نہ رہے اور     اللہ      زبردست ہے،حکمت والا ہے۔    
اور ارشاد فرمایا:     
’’    وَ لَوْ اَنَّاۤ اَهْلَكْنٰهُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِهٖ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْ لَاۤ اَرْسَلْتَ اِلَیْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِـعَ اٰیٰتِكَ مِنْ قَبْلِ اَنْ نَّذِلَّ وَ نَخْزٰى    ‘‘     (    طہ:     ۱۳۴)    
ترجمہ    ٔ    کنزالعرفان:    اور اگر ہم انہیں رسول کے آنے سے پہلے کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو ضرور کہتے: اے ہمارے رب! تو نے ہماری طرف کوئی رسول کیوں نہ بھیجا کہ ہم ذلیل و رسوا ہونے سے پہلے تیری آیتوں کی پیروی کرتے؟    
            نیز انہیں تبلیغ کرنے سے ایک فائدہ یہ بھی حاصل ہواکہ وہ اگرچہ ایمان نہیں لائے لیکن حضور پرنور    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کو     انہیں تبلیغ کرنے کا ثواب ضرور ملے گا اور یہ بات ہر مبلغ کو پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس کا کام تبلیغ کرنااور رضائے الہٰی پانا ہے، لوگوں کو سیدھی راہ پر لاکر ہی چھوڑنا نہیں لہٰذا مبلغ نیکی کی دعوت دیتا رہے اور نتائج     اللہ         تعالیٰ کے حوالے کردے         اور لوگوں کے نیکی کی دعوت قبول نہ کرنے سے مایوس ہونے کی بجائے ا س ثواب پر نظر         رکھے جو نیکی کی دعوت دینے کی صورت میں اسے آخرت میں ملنے والاہے۔

(آیت نمبر:07)   

 خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ وَ عَلٰى سَمْعِهِمْؕ-وَ عَلٰۤى اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ٘-وَّ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ۠(۷)

     ترجمۂ کنز العرفان         
اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگادی ہے اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
 تفسیر صراط الجنان          
{    خَتَمَ اللّٰهُ    :     اللہ     نے مہر لگادی۔}     ارشاد فرمایا کہ ان کافروں کا ایمان سے محروم رہنے کاسبب یہ ہے کہ     اللہ          تعالیٰ نے ان کے     دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے جس کی بناء پر یہ حق سمجھ سکتے ہیں نہ حق سن سکتے ہیں اور نہ ہی اس سے نفع اٹھاسکتے ہیں اور ان کی آنکھوں پرپردہ پڑا ہواہے جس کی وجہ سے یہ     اللہ     تعالیٰ     کی آیات اور اس کی وحدانیت کے دلائل دیکھ نہیں سکتے اور ان کے لئے آخرت میں بہت بڑا عذاب ہے۔    (    خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۷    ،     ۱     /     ۲۶)    

بعض کافرایمان سے محروم کیوں رہے؟    

                    یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ جو کافر ایمان سے محروم رہے ان پر ہدایت کی راہیں شروع سے بند نہ تھیں ورنہ تو وہ اس بات کا بہانہ بناسکتے تھے بلکہ اصل یہ ہے کہ ان کے کفرو عناد ، سرکشی و بے دینی ، حق کی مخالفت اور انبیاء کرام    عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام         سے عداوت کے انجام کے طور پر ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگی اور آنکھوں پر پردے پڑگئے ، یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص طبیب کی مخالفت کرے اور زہر ِقاتل کھا لے اور اس کے لیے دوا فائدہ مند نہ رہے اور طبیب کہہ دے کہ اب یہ تندرست نہیں ہوسکتا تو حقیقت میں اس حال تک پہنچانے میں اس آدمی کی اپنی کرتوتوں کا ہاتھ ہے نہ کہ طبیب کے کہنے کا لہٰذا وہ خود ہی ملامت کا مستحق ہے طبیب پر اعتراض نہیں کرسکتا۔   

آیت نمبر:08  



وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُاٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ(۸) 


    ترجمۂ کنز العرفان       

اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان والے نہیں ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان        
{   وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ   :اورکچھ لوگ کہتے ہیں۔}        اس سے پہلی آیات میں مخلص ایمان والوں کا ذکر کیاگیا جن کا ظاہر و باطن درست اور سلامت تھا،پھر ان کافروں کا ذکر کیا گیا جو سرکشی اور عناد پر قائم تھے اور اب یہاں سے لے کرآیت نمبر   20    تک منافقوں کا حال بیان کیا جا رہا ہے جو کہ اندرونِ خانہ کافر تھے اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے تھے۔اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اپنی زبانوں سے اس طرح کہتے ہیں کہ ہم    اللہ    تعالیٰ پر اورآخرت کے دن پر ایمان لے آئے ہیں حالانکہ وہ ایمان لانے والے نہیں ہیں کیونکہ ان کا ظاہر ان کے باطن کے خلاف ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ منافق ہیں۔   (   روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ:    ۸   ،    ۱    /    ۵۱)   
                        اس آیت سے چند باتیں معلوم ہوئیں :   
(   1   )…جب تک دل میں تصدیق نہ ہو اس وقت تک ظاہری اعمال مؤمن ہونے کے لیے کافی نہیں۔    
(   2   )… جو لوگ ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور کفر کا اعتقاد رکھتے ہیں سب منافقین ہیں۔   
(   3   )… یہ اسلام اور مسلمانوں کیلئے کھلے کافروں سے زیادہ نقصان دہ ہیں۔   
{   وَ مِنَ النَّاسِ   :   اورکچھ لوگ۔}   منافقوں کو ’’کچھ لوگ‘‘کہنے میں ا س بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ گروہ بہتر صفات اور انسانی کمالات سے ایسا عاری ہے کہ اس کا ذکر کسی وصف و خوبی کے ساتھ نہیں کیا جاتابلکہ یوں کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ہیں۔ اسی لئے انبیاء کرام       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام       کو محض انسان یا صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنے میں ان کے فضائل و کمالات کے انکار کا پہلو نکلتا ہے، لہٰذا اس سے اجتناب لازم ہے۔اگرآپ قرآن پاک مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انبیاء کرام    عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام       کو صرف بشر کے لفظ سے ذکر کرنا کفار کاطریقہ ہے جبکہ مسلمان انبیاء کرام       عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام       کا تذکرہ عظمت و شان سے       کرتے ہیں۔


آیت نمبر:09

  یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)

       ترجمۂ کنز العرفان             
یہ لوگ اللہ کو اور ایمان والوں کو فریب دینا چاہتے ہیں حالانکہ یہ صرف اپنے آپ کو فریب دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان              
{      یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ       : وہ       اللہ       کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں۔}            اللہ       تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اسے کوئی دھوکا دے سکے، وہ تمام پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے ۔ یہاں مراد یہ ہے کہ منافقوں کے طرزِ عمل سے یوں لگتا ہے کہ وہ خدا کو فریب دینا چاہتے ہیں یا یہ کہ خدا کو فریب دینا یہی ہے کہ وہ       رسول             اللہ             صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      کو دھوکا دینا چاہتے ہیں کیونکہ حضور پرنور       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      اللہ       تعالیٰ کے نائب اور خلیفہ ہیں اور انہیں دھوکہ دینے کی کوشش گویا خدا کو دھوکہ دینے کی طرح ہے لیکن چونکہ       اللہ              تعالیٰ نے اپنے حبیب       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      کو منافقین کے اندرونی کفر پر مطلع فرمایا تو یوں اِن بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے، نہ رسول پراور نہ مومنین پر بلکہ درحقیقت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں ا س چیز کا شعور ہی نہیں۔       

       ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے:            

                        اس آیت سے معلوم ہوا کہ ظاہر وباطن کا تضاد بہت بڑا عیب ہے۔ یہ منافقت ایمان کے اندر ہوتو سب سے بدتر ہے اور اگر عمل میں ہو تو ایمان میں منافقت سے تو کم تر ہے لیکن فی نفسہ سخت خبیث ہے، جس آدمی کے قول و فعل اور ظاہر و باطن میں تضاد ہوگا تو لوگوں کی نظر میں وہ سخت قابلِ نفرت ہوگا۔ ایمان میں منافقت مخصوص لوگوں میں پائی جاتی ہے جبکہ عملی منافقت ہر سطح کے لوگوں میں پائی جاسکتی ہے۔    

آیت نمبر:10  

 فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ-فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ-وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ(۱۰)

     ترجمۂ کنز العرفان         
ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔
 تفسیر صراط الجنان          
{    فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ    :ان کے دلوں میں بیماری ہے۔}اس آیت میں قلبی مرض سے مراد منافقوں کی منافقت اور حضور پرنور          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ         سے بغض کی بیماری ہے ۔ معلوم ہوا کہ بدعقیدگی روحانی زندگی کے لیے تباہ کن ہے نیز حضور اقدس          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ         کی عظمت و شان سے جلنے والا مریض القلب یعنی دل کا بیمار ہے۔    
             جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں اسی طرح کچھ باطنی امراض بھی ہوتے ہیں ، جسمانی امراض ظاہری صحت و تندرستی کے لئے سخت نقصان دہ ہوتے ہیں اور باطنی امراض ایمان اور روحانی زندگی کے لئے زہر قاتل ہیں۔ ان باطنی امراض میں سب سے بدتر تو عقیدے کی خرابی کا مرض ہے اور اس کے علاوہ تکبر، حسد، کینہ اور ریاکاری وغیرہ بھی         انتہائی برے مرض ہیں۔ہر مسلمان کوچاہئے کہ باطنی امراض سے متعلق معلومات حاصل کر کے ان سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرے اوراس کے لئے بطور خاص امام غزالی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ         کی مشہور کتاب احیاء العلوم کی تیسری جلد کامطالعہ بہت مفید ہے۔    
{    فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًا    :     تو     اللہ     نے ان کی بیماری میں اور اضافہ کردیا۔} مفسرین نے اس اضافے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں ،ان میں سے 3صورتیں درج ذیل ہیں :     
(1)…  ریاست چھن جانے کی وجہ سے منافقوں کو بہت قلبی رنج پہنچا اور وہ دن بہ دن حضور پرنور         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ         کی ثابت قدمی اور غلبہ دیکھ کر حسد کی آگ میں جلنے لگے توجتنا نبی اکرم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    کا غلبہ ہوتا گیا اور آپ     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    لوگوں میں مقبول ہوتے گئے اتنا ہی     اللہ     تعالیٰ نے منافقوں کے رنج و غم میں اضافہ کر دیا ۔    
(2)…منافقوں کے دل کفر،بد عقیدگی اور نبی کریم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    سے عداوت و دشمنی سے بھرے ہوئے تھے ،    اللہ     تعالیٰ نے اُن کی اِن چیزوں میں اس طرح اضافہ کر دیا کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی تاکہ کوئی وعظ و نصیحت ان پر اثر انداز نہ ہو سکے۔    
(3)…جیسے جیسے شرعی احکام اور نزول وحی میں اضافہ ہوا اور مسلمانوں کی مدد و نصرت بڑھتی گئی ویسے ویسے ان کاکفر بڑھتا گیا بلکہ ان کا حال تو یہ تھا کہ کلمہ شہادت پڑھنا ان پر بہت دشوار تھا اور اوپر سے عبادات میں اضافہ ہو گیا اورجرموں کی سزائیں بھی نازل ہو گئیں جس کی وجہ سے یہ لوگ بہت بے چین ہو گئے تھے۔    (    روح البیان، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱۰    ،     ۱ / ۵۵)    
{    وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۢ ﳔ بِمَا كَانُوْا یَكْذِبُوْنَ    :     اور ان کے لئے ان کے جھوٹ بولنے کی وجہ سے دردناک عذاب ہے۔}    
یعنی     اللہ     تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی وجہ سے ان کے لئے جہنم کا دردناک عذاب ہے۔    (    مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱۰    ، ص    ۲۶)    
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ بولنا حرام ہے اور اس پردردناک عذاب کی وعید ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ اس سے بچنے کی خوب کوشش کرے۔حضرت      عبداللہ     بن مسعود     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ         سے مروی ہے،    رسول         اللہ         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا’’سچائی کو    (اپنے اوپر)     لازم کرلو، کیونکہ سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کا راستہ دکھاتی ہے۔ آدمی برابر سچ بولتا رہتا ہے اور سچ بولنے کی کوشش کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ     اللہ     تعالیٰ         کے نزدیک صدیق لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچو، کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اورگناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے اور آدمی برابر جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ     اللہ      تعالیٰ          کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔    (    مسلم، کتاب البر والصلۃ۔۔۔ الخ، باب قبح الکذب۔۔۔ الخ، ص    ۱۴۰۵    ، الحدیث:     ۱۰۵(۲۶۰۷))    
حضرت انس     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ         سے روایت ہے، حضور اقدس         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ         نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے     (یعنی جھوٹ چھوڑنے کی چیز ہی ہے)     اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔    (    ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی المراء،     ۳ / ۴۰۰    ، الحدیث:     ۲۰۰۰

آیت نمبر:12'11

وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِۙ-قَالُوْۤا اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْنَ(۱۱)اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ لٰكِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ(۱۲)
  ترجمۂ کنز العرفان   
اورجب ان سے کہا جائے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں ہم توصرف اصلاح کرنے والے ہیں ۔ سن لو:بیشک یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں (اس کا)شعور نہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان    
لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔}  اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا کہ جب ایمان والوں کی طرف سے ان منافقوں کو کہا جائے کہ باطن میں کفر رکھ کر اور صحیح ایمان لانے میں پس و پیش کر کے زمین میں فساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ تم ہمیں ا س طرح نہ کہو کیونکہ ہمارا مقصد تو صرف اصلاح کرناہے ۔ اے ایمان والو! تم جان لو کہ اپنی اُسی روش پر قائم رہنے کی وجہ سے یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں مگر انہیں اس بات کاشعور نہیں کیونکہ ان میں وہ حس باقی نہیں رہی جس سے یہ اپنی اس خرابی کوپہچان سکیں۔  
           منافقوں کے طرزِ عمل سے یہ بھی واضح ہوا کہ عام فسادیوں سے بڑے فسادی وہ ہیں جو فساد پھیلائیں اور اسے اصلاح کا نام دیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اصلاح کے نام پر فساد پھیلاتے ہیں اور بدترین کاموں کو اچھے ناموں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آزادی کے نام پر بے حیائی، فن کے نام پر حرام افعال، انسانیت کے نام پر اسلام کو مٹانا اورتہذیب و تَمَدُّن کا نام لے کر اسلام پر اعتراض کرنا، توحید کا نام لے کر شانِ رسالت کا انکار کرنا، قرآن کا نام لے کر حدیث کا انکار کرنا وغیرہاسب فساد کی صورتیں ہیں۔


آیت نمبر:13 


وَ اِذَا قِیْلَ لَهُمْ اٰمِنُوْا كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ قَالُوْۤا اَنُؤْمِنُ كَمَاۤ اٰمَنَ السُّفَهَآءُؕ-اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(۱۳)


    ترجمۂ کنز العرفان       
اور جب ان سے کہا جائے کہ تم اسی طرح ایمان لاؤ جیسے اور لوگ ایمان لائے توکہتے ہیں :کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لائیں ؟ سن لو: بیشک یہی لوگ بیوقوف ہیں مگر یہ جانتے نہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان        
{   كَمَاۤ اٰمَنَ النَّاسُ   : جیسے اور لوگ ایمان لائے۔}  یہاں ’’   ا   َ   لنَّاسُ   ‘‘ سے صحابہ کرام       رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم   اور ان کے بعد ان کی کامل اتباع کرنے والے مراد ہیں۔   

 نجات والے کون لوگ ہیں ؟:   

اس آیت میں  بزرگانِ دین کی طرح ایمان لانے کے حکم سے معلوم ہوا کہ ان کی پیروی کرنے والے نجات والے ہیں اوران کے راستے سے ہٹنے والے منافقین کے راستے پر ہیں اوریہ بھی معلوم ہوا کہ ان بزرگوں پر طعن و تشنیع کرنے والے بہت پہلے سے چلتے آرہے ہیں۔ اس آیت کی روشنی میں صحابہ و ائمہ اور بزرگانِ دین    رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ       کے متعلق اپنا طرزِ عمل دیکھ کر ہر کوئی اپنا راستہ سمجھ سکتا ہے کہ صحابہ کے راستے پر ہے یا منافقوں کے راستے پر؟نیز علماء و صلحاء اور دیندارلوگوں کوچاہئے کہ وہ لوگوں کی بدزبانیوں سے بہت رنجیدہ نہ ہوں بلکہ سمجھ لیں کہ یہ اہلِ باطل کا قدیم دستور ہے۔نیز دینداروں کو بیوقوف یا دقیانوسی خیالات والا کہنے والے خود بے وقوف ہیں۔   
صحابہ کرام کی بارگاہ الہٰی میں مقبولیت:   
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تاجدار رسالت       صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ    کے صحابۂ کرام    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم       اللہ   تعالیٰ کی بارگاہ کے ایسے مقبول بندے ہیں کہ ان کی گستاخی کرنے والوں کو    اللہ    تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے۔ صحابۂ کرام    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم   کے بارے میں حضرت ابو سعید خدری    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ       سے روایت ہے،حضور پر نور   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ       نے ارشاد فرمایا:’’میرے صحابہ    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم           کو گالی گلوچ نہ کرو ،   (ان کا مقام یہ ہے کہ )   اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا   (   اللہ    تعالیٰ کی راہ میں)    خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم       کے ایک مُد    (ایک چھوٹی سی مقدار)   بلکہ آدھامُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا ۔   (   بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبیصلی اللہ علیہ وسلم، باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: لو کنت متخذا خلیلاً،    ۲ / ۵۲۲   ، الحدیث:    ۳۶۷۳)   
            اور    اللہ    تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں حضرت ابو ہریرہ    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ       سے       روایت ہے، حضور اقدس   صَلَّی اللہُ        تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ       فرماتے ہیں کہ    اللہ     تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اسے میں نے لڑائی کا اعلان دے دیا۔   (   بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع،    ۴ / ۲۴۸   ، الحدیث:    ۶۵۰۲)   
            اس سے ان لوگوں کو نصیحت حاصل کرنی چاہئے جو صحابہ کرام       رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم       کی بے ادبی اور گستاخی کرتے ہیں اور    اللہ     تعالیٰ کے اولیاء کے بارے میں غلط عقائد و نظریات رکھتے ہیں۔


آیت نمبر:14 

وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْۤا اٰمَنَّاۚۖ-وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْۙ-قَالُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْۙ-اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ(۱۴)

   ترجمۂ کنز العرفان     
اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں :ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم توصرف ہنسی مذاق کرتے ہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان      
{  وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا  : اور جب یہ ایمان والوں سے ملتے ہیں۔}  منافقین کا مسلمانوں کو بے وقوف کہنااور کفار سےاظہارِ یکجہتی کرنااپنی نجی محفلوں میں تھا جبکہ مسلمانوں سے تو وہ یہی کہتے تھے کہ ہم مخلص مومن ہیں ،اسی طرح آج کل کے گمراہ لوگ مسلمانوں سے اپنے فاسدخیالات کو چھپاتے ہیں مگر   اللہ     تعالیٰ   ان کی کتابوں اور تحریروں سے ان کے راز فاش کر دیتا ہے۔  

بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیاررہا جائے:  

یاد رہے کہ اس آیت سے مسلمانوں کو خبردار کیا جارہا ہے کہ وہ بے دینوں کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہیں اور ان کی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکا نہ کھائیں۔ایک اور مقام پر   اللہ   تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:   
’’  یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوْا  لَا  تَتَّخِذُوْا  بِطَانَةً  مِّنْ  دُوْنِكُمْ  لَا  یَاْلُوْنَكُمْ  خَبَالًاؕ-وَدُّوْا  مَا  عَنِتُّمْۚ- قَدْ  بَدَتِ  الْبَغْضَآءُ  مِنْ  اَفْوَاهِهِمْ ﭕ وَ  مَا  تُخْفِیْ  صُدُوْرُهُمْ  اَكْبَرُؕ-قَدْ  بَیَّنَّا  لَكُمُ  الْاٰیٰتِ  اِنْ  كُنْتُمْ  تَعْقِلُوْنَ(  ۱۱۸)  هٰۤاَنْتُمْ  اُولَآءِ  تُحِبُّوْنَهُمْ  وَ  لَا  یُحِبُّوْنَكُمْ  وَ  تُؤْمِنُوْنَ  بِالْكِتٰبِ  كُلِّهٖۚ- وَ  اِذَا  لَقُوْكُمْ  قَالُوْۤا  اٰمَنَّا  ﳒ  وَ  اِذَا  خَلَوْا  عَضُّوْا  عَلَیْكُمُ  الْاَنَامِلَ  مِنَ  الْغَیْظِؕ-قُلْ  مُوْتُوْا  بِغَیْظِكُمْؕ-اِنَّ  اللّٰهَ  عَلِیْمٌۢ  بِذَاتِ  الصُّدُوْرِ(  ۱۱۹)  اِنْ  تَمْسَسْكُمْ  حَسَنَةٌ  تَسُؤْهُمْ٘-وَ  اِنْ  تُصِبْكُمْ  سَیِّئَةٌ  یَّفْرَحُوْا  بِهَاؕ-وَ  اِنْ  تَصْبِرُوْا  وَ  تَتَّقُوْا  لَا  یَضُرُّكُمْ  كَیْدُهُمْ  شَیْــٴًـاؕ- اِنَّ  اللّٰهَ  بِمَا  یَعْمَلُوْنَ   مُحِیْطٌ    ‘‘     (  اٰل عمران:   ۱۱۸-۱۲۰)  
ترجمہ  ٔ  کنزالعرفان:  اے ایمان والو!غیروں کو راز دار نہ بناؤ، وہ تمہاری برائی میں کمی نہیں کریں گے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ تم مشقت میں پڑ جاؤ۔ بیشک   (ان کا)  بغض تو ان کے منہ سے ظاہر ہوچکا ہے اور جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے وہ اس سے بھی بڑھ کر ہے۔ بیشک ہم نے تمہارے لئے کھول کرآیتیں بیان کردیں اگر تم عقل رکھتے ہو۔ خبردار: یہ تم ہی ہو جو انہیں چاہتے ہو اور وہ تمہیں پسند نہیں کرتے حالانکہ تم تمام کتابوں پر ایمان رکھتے ہو اور جب وہ تم سے ملتے ہیں توکہتے ہیں ہم ایمان لاچکے ہیں اور جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو غصے کے مارے تم پر انگلیاں چباتے ہیں۔ اے حبیب! تم فرما دو ،اپنے غصے میں مرجاؤ۔ بیشک   اللہ   دلوں کی بات کو خوب جانتا ہے۔اگر تمہیں کوئی بھلائی پہنچے تو انہیں برا لگتا ہے اور اگر تمہیں کوئی برائی پہنچے تو اس پر خوش ہوتے ہیں اور اگر تم صبرکرو اورتقویٰ اختیار کرو تو ان کا مکروفریب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ بیشک   اللّٰہ   ان کے تمام کاموں کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔  
رسول کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا: ’’  اِیَّاکُمْ وَاِیَّاہُمْ لَا یُضِلُّوْنَکُمْ وَلَا یَفْتِنُوْنَکُمْ  ‘‘   ان سے دور رہو اور انہیں اپنے سے دور کروکہیں وہ تمہیں گمراہ نہ کردیں کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں۔  (  مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الروایۃ۔۔۔ الخ، ص  ۹  ،      الحدیث:   ۷(۷))  
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان   رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :مسلمان کا ایمان ہے کہ   اللہ    ورسول سے زیادہ کوئی ہماری بھلائی چاہنے والا نہیں ،   (اور   اللہ    و رسول)  جَلَّ وَعَلَا وَ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ   جس بات کی طرف بلائیں یقینا ہمارے دونوں جہان کا اس میں بھلاہے، اور جس بات سے منع فرمائیں بلا شبہ سراسر ضرروبلاہے۔ مسلمان صورت میں ظاہرہوکر جواِن کے حکم کے خلاف کی طرف بلائے یقین جان لو کہ یہ ڈاکو ہے،اس کی تاویلوں پر ہر گز کان نہ رکھو، رہزن جو جماعت سے باہر نکال کر کسی کو لے جانا چاہتا ہے ضرور چکنی چکنی باتیں کرے گا اور جب یہ دھوکے میں آیا اور ساتھ ہولیا تو گردن مارے گا، مال لوٹے گا، شامت اس بکری کی کہ اپنے راعی  (یعنی چرانے والے)   کا ارشاد نہ سنے اور بھیڑیا جو کسی بھیڑ کی اون پہن کر آیا اس کے ساتھ ہولے، ارے! مصطفیٰ      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ   تمہیں منع فرماتے ہیں وہ تمہاری جان سے بڑھ کر تمہارے خیر خواہ ہیں :’’  حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ  ‘‘ تمہارا مشقت میں پڑنا ان کے قلبِ اقدس پر گراں ہے: ’’  عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ  ‘‘   واللہ   وہ تم پر اس سے زیادہ مہربان ہیں جیسے نہایت چہیتی ماں اکلوتے بیٹے پر: ’’  بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ  ‘‘۔ ارے! ان کی سنو، ان کا دامن تھام لو، ان کے قدموں سے لپٹ جاؤ۔  (فتاوی رضویہ،   ۱۵ / ۱۰۵)  
{  وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰى شَیٰطِیْنِهِمْ  :اور جب اپنے شیطانوں کے پاس تنہائی میں جاتے ہیں۔}  یہاں شیاطین سے کفار کے وہ سردار مراد ہیں جو دوسروں کو گمراہ کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ منافق جب اُن سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور مسلمانوں سے ملنا محض استہزاء کے طور پر ہے اور ہم ان سے اس لیے ملتے ہیں تا کہ ان کے راز معلوم ہوں اور ان میں فساد انگیزی کے مواقع ملیں۔اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح جِنّات میں شیاطین ہوتے ہیں اسی طرح انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں۔  
{  اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ  : ہم توصرف ہنسی مذاق کرتے ہیں۔}   منافقین صحابہ کرام   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم     کے سامنے ان کی تعریفیں کرتے اور بعد میں ان کا مذاق اڑاتے تھے، اسی بات کو بیان کرنے کیلئے یہ آیت ِ مبارکہ نازل ہوئی ۔  

صحابہ کرام اور علماء دین کا مذاق اڑانے کا حکم:  

اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  اور پیشوایانِ دین کامذاق اڑانامنافقوں کا کام ہے۔ آج کل بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنی مجلسوں اور مخصوص لوگوں میں ’’علماء و صلحاء‘‘ اور’’ دینداروں ‘‘ کا مذاق اُڑاتے اوران پر پھبتیاں کستے ہیں اور جب ان کے سامنے آتے ہیں تو منافقت سے بھرپور ہوکر خوشامداور چاپلوسی کرتے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھتے ہیں ،یونہی ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جنہیں مذہب اور مذہبی نام سے نفرت ہے اور مذہبی حلیہ اور وضع قطع دیکھ کر ان کی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔  اللہ   تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے ۔ یاد رہے کہ انبیاء کرام   عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام     اور دین کا مذاق اڑانا کفر ہے،یونہی صحابہ کرام     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم  کی بے ادبی گمراہی ہے ،اسی طرح علم کی وجہ سے علماء دین کا مذاق اڑانا کفر ہے ورنہ حرام ہے۔

آیت نمبر:15

اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَ یَمُدُّهُمْ فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۱۵)

    ترجمۂ کنز العرفان       
اللہ ان کی ہنسی مذاق کا انہیں بدلہ دے گا اور (ابھی)وہ انہیں مہلت دے رہا ہے کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں ۔
 تفسیر صراط الجنان 
{   اَللّٰهُ یَسْتَهْزِئُ بِهِمْ   :   اللہ    ان کی ہنسی مذاق کا انہیں بدلہ دے گا۔}   اللہ       تعالیٰ    استہزاء اور تمام عیوب سے پاک ہے یہاں جو    اللہ       تعالیٰ    کی طرف استہزاء کی نسبت ہے اس سے مرادمنافقوں کے استہزاء کا بدلہ دینا ہے اور بدلے کے وقت عربی    (اور اردو)    میں اسی طرح کا لفظ دہرا دیا جاتا ہے جیسے کہا جائے کہ برائی کا بدلہ برائی ہی ہوتا ہے حالانکہ برائی کا بدلہ تو عدل و انصاف اور آدمی کا حق ہوتا ہے۔   (   تفسیر قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ:    ۱۵   ، الجزء الاول،    ۱ / ۱۸۳) 


آیت نمبر:16  

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ اشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى۪-فَمَا رَبِحَتْ تِّجَارَتُهُمْ وَ مَا كَانُوْا مُهْتَدِیْنَ(۱۶)
     ترجمۂ کنز العرفان         
یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی تو ان کی تجارت نے کوئی نفع نہ دیا اوریہ لوگ راہ جانتے ہی نہیں تھے۔

 تفسیر صراط الجنان

{     اِشْتَرَوُا الضَّلٰلَةَ بِالْهُدٰى    :یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدلی۔}     ہدایت کے بدلے    گمراہی خریدنا     یعنی’’ ایمان کی بجائے کفر اختیار کرنا‘‘ نہایت خسارے اور گھاٹے کا سودا ہے۔ یہ آیت یا توان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے یا یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی جوپہلے تو حضور پر نور     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ         پر ایمان رکھتے تھے مگر جب حضور اقدس         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ     کی تشریف آوری ہوئی تو منکر ہو گئے، یا یہ آیت تمام کفار کے بارے میں نازل ہوئی اس طور پر کہ     اللہ              تعالیٰ     نے انہیں فطرت سلیمہ عطا فرمائی، حق کے دلائل واضح کئے، ہدایت کی راہیں کھولیں لیکن انہوں نے عقل و انصاف سے کام نہ لیا اور گمراہی اختیار کی تو وہ سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تاجر ہیں کہ انہوں نے نفع ہی نہیں بلکہ اصل سرمایہ بھی تباہ کرلیا۔ 

 آیت نمبر:17
مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷)صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸)
  ترجمۂ کنز العرفان   
:ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی پھر جب اس آگ نے اس کے آس پاس کو روشن کردیا تواللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیا،انہیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہرے، گونگے، اندھے ہیں پس یہ لوٹ کر نہیں آئیں گے۔
 تفسیر صراط الجنان    

 مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی۔}  یہ ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں  اللہ  تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اُس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اسے ضائع کردیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا ،ان کا انجام حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے اس میں وہ منافق بھی داخل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کردیا اور وہ بھی جو مومن ہونے کے بعد مرتد ہوگئے اور وہ بھی جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی اور دلائل کی روشنی نے حق کو واضح کیا مگر انہوں نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا اور گمراہی اختیار کی اور جب حق کو سننے ، ماننے، کہنے اور دیکھنے سے محروم ہوگئے تو کان، زبان، آنکھ سب بیکار ہیں۔
(آیت نمبر:20'19)

اَوْ ùكَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹)یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۠(۲۰)

    ترجمۂ کنز العرفان       

یا (ان کی مثال) آسمان سے اترنے والی بارش کی طرح ہے جس میں تاریکیاں اور گرج اور چمک ہے ۔ یہ زور دار کڑک کی وجہ سے موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں حالانکہ اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اچک کرلے جائے گی۔ (حالت یہ کہ)جب کچھ روشنی ہوئی تو اس میں چلنے لگے اور جب ان پر اندھیرا چھا گیا تو کھڑے رہ گئے اور اگراللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں سلَب کر لیتا۔ بیشک اللہ ہر شے پر قادرہے۔

 تفسیر صراط الجنان        

{   اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ   :یا جیسے آسمان سے بارش۔} ہدایت کے بدلے گمراہی خریدنے والوں کی یہ دوسری مثال بیان کی گئی ہے اور یہ ان منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے تھے ان کے بارے میں فرمایا کہ جس طرح اندھیری رات اور بادل و بارش کی تاریکیوں میں مسافر متحیر ہوتا ہے، جب بجلی چمکتی ہے توکچھ چل لیتا ہے جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت       منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشقت پیش آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں اور یہی مقام اپنے اور بیگانے ،مخلص اور منافق کے پہچان کا ہوتا ہے۔منافقوں کی اسی طرح کی حالت سورۂ نور آیت نمبر48اور49میں بھی بیان کی گئی ہے۔    

{   عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ    :    اللہ    تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔}شے اسی کو کہتے ہیں جسے    اللہ        تعالیٰ    چاہے اور جو مشیت یعنی چاہنے کے تحت آسکے۔ ہر ممکن چیز شے میں داخل ہے اور ہر شے    اللہ        تعالیٰ    کی قدرت میں ہے اورجو ممکن نہیں بلکہ واجب یامحال ہے اس سے    اللہ        تعالیٰ    کے ارادہ اور قدرت کا تعلق ہی نہیں ہوتا جیسے    اللہ    تعالیٰ    کی ذات و صفات واجب ہیں اس لیے قدرت کے تحت داخل نہیں مثلاً یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ    اللہ     تعالیٰ چاہے تو اپنا علم ختم کرکے بے علم ہوجائے یا    معاذاللہ    جھوٹ بولے۔ یاد رہے کہ ان چیزوں کا    اللہ       تعالیٰ    کی قدرت کے تحت نہ آنا اس کی قدرت میں نقص و کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ ان چیزوں کا نقص ہے کہ ان میں یہ صلاحیت نہیں کہ    اللہ   تعالیٰ    کی قدرت سے متعلق ہوسکیں۔   




   






    
Previous
Next Post »

Featured Post

اسلام کی سچی تعلیم

    🌹بسم اللہ الرحمن الرحیم 🌹 ...