(سلام کرنے کے آداب)

   🥀بسم اللہ الرحمن الرحیم🥀

BOOK NAME:SUNNATAIN AUR ADAAB






 

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ  اللہ  الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
’’سنّتیں اور آداب‘‘ کے12 حُروف کی نسبت سے اس کتاب کو پڑھنے کی ’’12  نیّتیں ‘‘
 فرمانِ مصطفی صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ :    نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے(المعجم الکبیر للطبرانی، الحدیث  :  ۵۹۴۲، ج۶، ص۱۸۵)  دو مَدَنی پھول :
 (۱) بغیر اچّھی نیّت کے کسی بھی عملِ خیر کا ثواب نہیں ملتا۔
(۲)جتنی اچّھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔
        (۱)ہر بارحمد و (۲)صلوٰۃ اور(۳)تعوُّذو(۴)تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔(اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی دو عَرَبی عبارات پڑھ لینے سے چاروں نیّتوں پر عمل ہوجائے گا)۔ (۵)رِضائے الٰہی  عَزَّ وَجَلَّ  کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخِر مطالَعہ کروں گا۔ (۶) حتَّی الْوَسْعْ اِس کا باوُضُو مُطالَعَہ کروں گا(۷) قرآنی آیات اور (۸)اَحادیثِ مبارَکہ کی زِیارت کروں گا(۹)جہاں جہاں ’’ اللہ ‘‘کا نام پاک آئے گا وہاں عَزَّ وَجَلَّ   اور(۱۰) جہاں جہاں ’’سرکار‘‘کا اِسْمِ مبارَک آئے گا وہاںصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پَڑھوں گا۔(۱۱)(اپنے ذاتی نسخے پر) ’’یادداشت‘‘ والے صفحہ پر ضَروری نِکات لکھوں گا۔(۱۲)کتابت وغیرہ میں شَرْعی غلَطی ملی تو نا شرین کو تحریری طور پَر مُطَّلع کروں گا(مصنّف یاناشِرین وغیرہ کو کتا بوں کی اَغلاط صِرْف زبانی بتاناخاص مفید نہیں ہوتا)   
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ 

الرَّجِیْسْمِ اللہ  الرَّحْمٰنِ ط


از : شیخِ طریقت، امیرِ اہلسنّت، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ
 مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ
      اَلْحَمْدُلِلّٰہِ علٰی اِحْسَا نِہٖ وَ بِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تبلیغِ قراٰن و سنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسن وخوبی سر انجام دینے کے لئے متعدَّد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک مجلس ’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘بھی ہے جو  دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہُ تعالٰی پر مشتمل ہے ، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے ہیں : 
        شعبۂ کتُبِ اعلیٰحضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (۲)شعبۂ درسی کُتُب  
        (۳)شعبۂ اصلاحی کُتُب   (۴)شعبۂ تفتیشِ کُتُب 
        (۵)شعبہ تخریج    (۶)شعبۂ تراجمِ کتب
        ’’ا لمد ینۃ العلمیۃ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلٰیحضرت اِمامِ اَہلسنّت، عظیم البَرَکت، عظیمُ المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامیٔ سنّت ، ماحیٔ بِدعت، عالِمِ شَرِیْعَت، پیرِ طریقت، باعثِ خَیْر و بَرَکت، حضرتِ علاّمہ مولیٰنا الحاج الحافِظ القاری الشّاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسعَ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے ۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی ، تحقیقی اور اشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اورمجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتُب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں ۔
        اللہ عَزَّ وَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول’’المد ینۃ العلمیۃ‘‘ کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اخلاص سے آراستہ فرماکر دونو ں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ہمیں زیرِ گنبدِ خضرا  شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔
                      اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم          
                                                                                                                                                                                                                                                                          رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ          
پہلے اسے پڑھ لیجئے
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
        نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، شاہ ِبنی آدم صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنتوں پر عمل کرنا دنیا وآخرت کی ڈھیروں بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ حضرت سیدناانس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ عَنِ الْعُیوب صَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’مَنْ اَحَبَ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔‘‘ (جامع الترمذی، کتاب العلم،  الحدیث ۲۶۸۷، ج ۴، ص ۳۰۹ ، مطبوعہ دارالفکربیروت)
        ایسے نازک حالات میں کہ جب دنیا بھر میں گناہوں کی یلغار، ذرائع ابلاغ میں فحاشی کی بھر مار اور فیشن پرستی کی پھٹکار مسلمانوں کی اکثریت کو بے عمل بناچکی ہے، نیز علمِ دین سے بے رغبتی اور ہر خاص و عام کارُجحان صرف دُنیاوی تعلیم کی طرف ہونے کی وجہ سے اوردینی مسائل سے عدمِ واقفیت کی بنا پر ہر طرف جہالت کے بادل منڈلا رہے ہیں ، لادینیت و بدمذہبیت کا سیلاب تباہیاں مچا رہا ہے، ، گلشن ِاسلام پر خَزاں کے بادل مَنڈلا رہے ہیں ، ہمیں اپنی زندگی سنّتوں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہئیے ۔
        حضرت سیدنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصَلَّی  اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :  ’’مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃِ شَہِیْدٍ یعنی فسادِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا ۔‘‘
(کتاب الزھد الکبیرللامام البیھقی،  الحدیث ۲۰۷، ج۱ ، ص۱۱۸ ، مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)   
          زیرِ نظر کتاب’’سنّتیں اور آداب ‘‘ میں تقریباً 23عنوانات کے تحت سنتیں اور آداب بیان کئے گئے ہیں تاکہ مختصر مطالعے کے بعد بھی قدرِ کفایت معلومات حاصل ہو سکیں ۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے لئے شیخ ِ طریقت ، امیرِ اہلِسنّت ، بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی مایہ ناز تألیف فیضانِ سنت ودیگر تالیفات سے بھر پور استفادہ کیا گیا ہے ۔ حتی المقدور روایات کے حوالہ جات بھی لکھ دئیے گئے ہیں ۔ سنّتوں پر عمل کا جذبہ پانے کے لئے تبلیغِ قراٰن وسنّت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَ نی قافلوں میں سفر کرنا بے حد مفید ہے ۔
        اس کتاب کوشعبہ اِصلاحی کتب مجلس المدینۃ العلمیۃ  (دعوتِ اسلامی )کے مدنی  اسلامی بھائیوں نے مرتب کیا ہے ۔اس میں آپ کو جوخوبیاں دکھائی دیں وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عطا، اس  کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نظر کرم، علماء کرام رحمہم اﷲ  تَعَالٰی بالخصوص شیخ طریقت امیر اہلسنت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولاناابو بلال محمد الیاس عطار قادری مدظلہ العالی کے فیض سے ہیں اور جو خامیاں نظر آئیں ان میں یقینا ہماری کوتاہی کو دخل ہے۔
          اللہ   تَعَالٰی سے دعا ہے کہ ہمیں ’’اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش‘‘ کرنے کے لئے مدنی انعامات پر عمل اور مدنی قافلوں کا مسافر بنتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور دعوت ِ اسلامی کی تمام مجالس بشمول مجلس المدینۃ العلمیۃ کو دن پچیسویں رات چھبیسویں ترقی عطا فرمائے ۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم   
شعبہ اصلاحی کتب (مجلس المدینۃ العلمیۃ )   
سلام کرنے کی سنتیں اور آداب
 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!
         سلا م کر نا ہمارے پیا ر ے آقا، تا جدا ر مد ینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بہت ہی پیار ی سنت ہے(بہارِ شریعت ، حصہ ۱۶، ص۸۸)
، بدقسمتی سے آ ج کل یہ سنت بھی ختم ہو تی نظر آرہی ہے ۔اسلامی بھائی جب آپس میں ملتے ہیں تو اَلسَّلَا مُ عَلَیْکُمْ سے ابتدا کرنے کے بجائے ’’آداب عرض‘‘ کیا حال ہے ؟’’ مزاج شریف ‘‘ صبح بخیر‘‘، ’’ شام بخیر ‘‘وغیرہ وغیرہ عجیب وغریب کلمات سے ابتداء کرتے ہیں ، یہ خلافِ سنت ہے ۔ رخصت ہوتے وقت بھی ’’خدا حافظ‘‘’’گڈبائی‘‘’’ٹاٹا‘‘وغیرہ کہنے کے بجائے سلام کرنا چاہئے۔ ہاں رخصت ہوتے ہوئے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کے بعد اگر خدا حافظ کہہ دیں تو حرج نہیں ۔سلام کی چند سنّتیں اور آداب ملاحظہ ہوں :
    (۱)سلام کے بہترین الفاظ یہ ہیں ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہ وَبَرَکَاتُہٗ  یعنی تم پر سلامتی ہواور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طر ف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ، ج۲۲، ص۴۰۹)
        (۲) سلام کرنے والے کو اس سے بہتر جواب دینا چاہئے ۔اللہ عَزَّ وَجَلَّ  ارشاد فرماتا ہے :     
وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّةٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَاؕ     (پ ۵، النسا : ۸۶)
ترجمہء کنزالایمان :  اور جب تمہیں کوئی کسی لفظ سے سلام کرے تو تم اس سے بہترلفظ جواب میں کہو یا وہی کہہ دو ۔
         (۳)سلا م کے جواب کے بہترین الفا ظ یہ ہیں :
’’وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ یعنی اور تم پر بھی سلامتی ہواور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طر ف سے رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں ۔( ماخوذ از فتاویٰ رضویہ ، ج۲۲، ص۴۰۹) 
        (۴)سلام کرنا حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی بھی سنت ہے ۔(مراٰۃ المناجیح ، ج۶، ص۳۱۳) حضرت ابوہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور سید دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :  ’’ جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیدنا آدم علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام کو پیدا فرمایا تو انہیں حکم دیا کہ جاؤ او رفرشتو ں کی اس بیٹھی ہوئی جماعت کو سلام کرو۔ اور غور سے سنو! کہ وہ تمہیں کیا جواب دیتے ہیں ۔ کیونکہ وہی تمہارا اور تمہاری اولاد کا سلام ہے ۔حضرت سیدنا آدم علیہ السلام نے فرشتو ں سے کہا :  اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ تو انہوں نے جواب دیا ، ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ‘‘ اور انہوں نے’’ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ ‘‘کے الفاظ زائد کہے ۔‘‘( صحیح البخاری ، کتاب الاستئذان ، باب بدء السلام،  الحدیث  ۶۲۲۷، ج۴، ص۱۶۴)
        (۵)عام طو ر پرمعروف یہی ہے کہ ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ ‘‘ ہی سلام ہے ۔مگر سلام کے دو سرے بھی بعض صیغے ہیں ۔ مثلاً کوئی آکر صرف کہے ’’سلام‘‘ تو بھی سلام ہوجاتا ہے او ر’’ سلام‘‘ کے جواب میں ، ’’سلام ‘‘ کہہ دیا ، یا ،  اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ ہی کہہ دیا ، یا صرف ’’ وَعَلَیْکُمْ ‘‘ کہہ دیا تو بھی جواب ہوگیا۔‘‘ (ماخوذازبہارِ شریعت، حصہ۱۶، ص۹۳)
   
        (۶) سلام کرنے سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے۔حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ، کہ حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ تم جنت میں داخل نہیں ہوگے جب تک تم ایمان نہ لاؤ اور تم مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو ۔کیا میں تم کو ایک ایسی چیز نہ بتاؤں جس پر تم عمل کرو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو۔ اپنے درمیان سلا م کو عام کرو ۔‘‘(سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی افشاء السلام،  الحدیث  ۵۱۹۳، ج۴، ص۴۴۸)
        (۷)ہرمسلمان کو سلام کرنا چاہئے خواہ ہم اسے جانتے ہو ں یا نہ جانتے ہوں ۔حضرت عبد اللہ  بن عمر وبن العاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے کہ ایک آدمی نے حضور تا جدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے عرض کیا ، اسلام کی کون سی چیز سب سے بہتر ہے؟ تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : یہ کہ تم کھانا کھلاؤ (مسکینوں کو )  اور سلام کہو ہر شخص کو خواہ تم اس کو جانتے ہو یا نہیں ۔(صحیح البخاری ، کتاب الاستئذان، باب السلام للمعرفۃ وغیر المعرفۃ،  الحدیث ۶۲۳۶، ج۴، ص۱۶۸)
       میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہوسکے تو جب بس میں سوار ہوں ، کسی اسپتال میں جانا پڑجائے ، کسی ہوٹل میں داخل ہوں جہاں لوگ فارغ بیٹھے ہوں ، جہاں جہاں مسلمان اکٹھے ہوں ، سلام کردیا کریں ۔ یہ دو الفاظ زبان پر بہت ہی ہلکے ہیں ، مگر ان کے فوائد وثمرات بہت ہی زیادہ ہیں ۔
        (۸) بعض صحابہ علیہم الرضوان صرف سلام کی غرض سے بازار میں جایا کرتے تھے۔ حضرت طفیل بن ابی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ وہ عبد اللہ  بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے پاس جاتے تو وہ ان کو ساتھ لے کر بازار کی طر ف چل پڑتے ۔ راوی کہتے ہیں جب ہم چل پڑتے تو حضرت عبد اللہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ جس رد ی فروش ، دکاندار یا مسکین کے پاس سے گزرتے تو اس کو سلام کہتے ۔حضرت طفیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں ، ایک دن میں حضرت عبد اللہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے بازار چلنے کو کہا ۔ میں نے عرض کیا ، بازار جاکر کیاکریں گے ؟ وہاں آپ نہ تو خریداری کے لئے رُکتے ہیں ، نہ سامان کے متعلق پوچھتے ہیں ، نہ بھاؤ کرتے ہیں اور نہ بازار کی مجلس میں بیٹھتے ہیں ، میری تو گزارش یہ ہے کہ یہیں ہمارے پاس تشریف رکھیں ۔ہم باتیں کریں گے ۔ فرمایا : ’’ اے بڑے پیٹ والے ! (سیدناطفیل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا پیٹ بڑا تھا) ہم صرف سلام کی غر ض سے جاتے ہیں ۔ ہم جس سے ملتے ہیں اس کو سلام کہتے ہیں ۔‘‘

(ریاض الصالحین، کتاب السلام ، باب فضل السلام والامربافشاء ہ،  الحدیث ۸۵۰، ص۲۴۹)

        (۹)بات چیت شروع کرنے سے پہلے ہی سلام کرنے کی عادت بنانی چاہیے  ۔نبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا’’اَلسَّلَامُ قَبْلَ الْکَلَامِ  یعنی سلام بات چیت سے پہلے ہے۔‘‘(جامع الترمذی، کتاب الاستئذان...الخ، باب ماجاء فی السلام...الخ، ج۴، ص۳۲۱)

        (۱۰)چھوٹا بڑے کو ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ، تھوڑے زیادہ کو اور سوار پیدل کوسلام کرنے میں پہل کریں ۔سر کارمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے ۔ سوار پیدل کو سلام کرے ، چلنے والا بیٹھے ہوئے کو ، اور تھوڑ ے لوگ زیادہ کو ، اور چھوٹا بڑے کو سلام کرے ۔(صحیح مسلم،کتاب السلام، باب یسلم الراکب علی الماشی والقلیل علی الکثیر ،  الحدیث ۲۱۶۰، ص۱۱۹۱)   

        (۱۱)پیچھے سے آنے والا آگے والے کو سلام کرے ۔(الفتاویٰ الہندیہ، کتاب الکراہیۃ، باب السابع فی السلام وتشمیت العاطس، ج۵، ص۲۲۵)

        (۱۲) جب کوئی کسی کا سلام لائے تو اس طر ح جواب دیں ’’ عَلَیْکَ وَعلیہ السلام ‘‘ یعنی تجھ پر بھی او ر اس پر بھی سلام ہو۔‘‘۔حضرت غالب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُفرماتے ہیں کہ ہم حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے ، ایک آدمی نے بتا یاکہ میرے والدِ ماجد نے رسول  اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاس بھیجا اور فرمایا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو میرا سلام عرض کر۔ اس نے کہا ، میں آپ (حضورصلی  اللہ  علیہ واٰلہ وسلم ) کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوگیا اور میں نے عرض کی ، سر کار! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے والد صاحب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سلام عرض کرتے ہیں ۔ حضورسید دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :  ’’عَلَیْکَ وَعَلٰی اَبِیْکَ السَّلَام یعنی تجھ پر اور تیرے باپ پر سلام ہو ۔‘‘(سننِ ابی داؤد ، کتاب الادب، باب فی الرجل یقول فلان یقرئک السلام، الحدیث ۵۲۳۱، ج۴، ص۴۵۸)

        (۱۳) سلام میں پہل کرنے والا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا مقر ب ہے۔حضرت ابوامامہ صدی بن عجلان الباہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ حضور تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’لوگو ں میں اللہ   تَعَالٰی کے زیادہ قریب وہی شخص ہے جو انہیں پہلے سلام کرے ۔‘‘(سننِ ابی داؤد ، کتاب الادب، باب فی فضل من بدء بالسلام،  الحدیث  ۵۱۹۷، ج۴، ص۴۴۹)

        حضرت ابوامامہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے ، عرض کیا گیا ، یارسول  اللہ   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! دو آدمی آپس میں ملیں تو کون پہلے سلام کرے ؟ فرمایا : ’’ جوا ن میں  اللہ  تَعَالٰی کے زیادہ قریب ہو۔(جامع الترمذی ، کتاب الاستئذان ، باب فضل الذی یبدء بالسلام،  الحدیث ۲۸۰۳، ج۴، ص۳۱۸)   

        (۱۴) سلام میں پہل کرنے والا تکبر سے بری ہے ۔حضرت عبد اللہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنبی کریم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں ، فرمایا : ’’ پہلے سلام کہنے والا تکبر سے بری ہے۔‘‘(شعب الایمان، باب فی مقاربۃ وموادۃ اہل الدین،  الحدیث۸۷۸۶، ج۶، ص۴۳۳)

        (۱۵) جب گھر میں داخل ہوں تو گھر والوں کوسلام کیا کریں اس سے گھرمیں برکت ہوتی ہے ۔اور اگر خالی گھر میں داخل ہوں تو ’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَاا النَّبِیُّ‘‘کہیں  یعنی اے نبی صلی  اللہ  علیہ واٰلہ وسلم!آپ پرسلام ہو‘‘ ۔

        حضرت ملا علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ  فرماتے ہیں :  ہرمومن کے گھرمیں سر کار مدینہ صلی  اللہ  علیہ واٰلہ وسلم کی روح مبارک تشریف فرمار ہتی ہے ۔شرح شفاء، الباب الرابع، ج۲، ص۱۱۸)

        حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ رسول اللہ  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’ اے بیٹے ! جب تم اپنے گھرمیں داخل ہوتوسلام کہو ، یہ تمہارے لئے اور تمہارے گھر والوں کے لئے برکت کا با عث ہوگا ۔‘‘ (جامع الترمذی ، کتاب الاستئذان والادب ، باب ماجآء فی التسلیم اذادخل بیتہ،  الحدیث ۲۷۰۷، ج۴، ص۳۲۰)

        گھر میں جب داخل ہوں اس وقت بھی سلام کریں اور جب رخصت ہونے لگیں ، اس وقت بھی سلام کریں ۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’جس وقت تم گھر میں داخل ہوا پنے گھر کے لوگوں کو سلام کہو ۔ جب اپنے گھر والوں سے نکلو تو سلام کے ساتھ رخصت ہو ۔‘‘

(مشکٰوۃ المصابیح ، کتاب الادب، باب السلام، الفصل الثانی،  الحدیث ۴۶۵۱، ج۲، ص۱۶۵)

   

 (۱۶) آج کل اگر کوئی  کسی محفل ، اجتماع یا مجلس وغیرہ میں آکر سلام کر بھی دیتا ہے تو جاتے ہوئے ’’ میں چلتا ہوں ‘‘ ’’خدا حافظ‘‘، ’’ اچھا‘‘’’ بائی بائی ‘‘ وغیرہ کلمات کہتا ہے لہذا مجلس کے اختتام پر  ان سب الفاظ کے بجائے سلام کیا کریں ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُحضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے روایت کرتے ہیں : ’’ جس وقت تم میں سے کوئی کسی مجلس کی طرف پہنچے ، سلام کہے ۔ اگر ضرورت محسوس کرے ، وہاں بیٹھ جائے ۔ پھر جب کھڑا ہوسلام کہے اس لئے کہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ بہتر نہیں ہے ۔‘‘

(جامع الترمذی، کتاب الاستئذان، باب ما جآء فی التسلیم عند القیام وعندالقعود،  الحدیث ۲۷۱۵، ج۴، ص۳۲۴)

        (۱۷)اگر کچھ لوگ جمع ہیں ایک نے آکر اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہا ۔ تو کسی ایک کا جواب دے دینا کافی ہے ۔ اگر ایک نے بھی نہ دیا تو سب گنہگار ہوں گے ۔ اگر سلام کرنے والے نے کسی ایک کانام لے کر سلام کیا یا کسی کو مخاطَب کر کے سلام کیا تو اب اسی کو جواب دینا ہوگا ۔ دوسرے کاجواب کافی نہ ہوگا۔(ماخوذازبہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۸۹)

        حضرت مولا علی کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے ’’ جب کوئی شخص گزرتے ہوئے سلام کہہ دے اور بیٹھنے والوں میں سے ایک شخص جواب دے تو سب لوگوں کی طرف سے کفایت کرجاتا ہے ۔ـ‘‘(سننِ ابی داؤد، کتاب الادب ، باب ما جآء فی رد واحد عن الجماعۃ، الحدث۵۲۱۰، ج۴، ص ۴۵۲)

        (۱۸اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہنے سے دس نیکیاں ،  اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم وَرَحْمَۃُ اللّٰہْکہنے سے بیس نیکیاں جبکہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَ کَاتُہکہنے سے تیس نیکیا ں ملتی ہیں ۔ چنانچہحضرت عمران بن حصین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ ایک آدمی حضورتاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور اس نے عرض کیا ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا ، دس نیکیاں لکھی گئی ہیں ۔ پھر دو سرا حاضر ہوا اس نے عرض کیا ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ  ۔آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کو  نےجواب دیا ، وہ بھی بیٹھ گیا، آپ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : بیس نیکیاں لکھی گئی ہیں ۔پھر ایک اور آدمی حاضر خدمت ہوا ، اس نے عرض کیا : اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَ کَاتُہٗ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس کوجواب دیا اور فرمایا ، تیس نیکیاں ہیں ۔  (جامع الترمذی، کتاب الاستئذان والادب، باب ما فی فضل السلام،  الحدیث ۲۶۹۸، ج۴، ص۳۱۵)


        (۱۹)اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولیٰناشاہ امام اَحمد رضا خان علیہ رحمۃُ الرَّحمٰن فتاوٰی رضویہ جلد 22 صَفْحَہ409 پر فرماتے ہیں :  کم از کم السَّلامُ علیکماوراس سے بہتروَرَحمَۃُ اللّٰہ ملانا اور سب سے بہتر وَبَرَکاتُہٗ شامل کرنا اور اس پر زِیادَت نہیں ۔پھرسلام کرنے والے نے جتنے الفاظ میں سلام کیا ہے جواب میں اتنے کا اِعادہ تو ضَرور ہے اور افضل یہ ہے کہ جواب میں زیادہ کہے۔ اس نے السَّلامُ علیکم کہا تو یہ وعَلَیکُمُ السَّلام وَرَحمَۃُ اللّٰہ کہے۔ اورا گر اس نے السَّلامُ علیکم وَ رَحمَۃُ اللّٰہکہا تو یہ وَعَلیکمُ السَّلامُ وَرَحمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکاتُہٗ کہے اوراگر اس نےوبَرَکاتُہٗ تک کہا تویہ بھی اتنا ہی کہے کہ اس سے زِیادَت نہیں ۔ و اللہ   تَعَالٰی اعلم

        (۲۰)جو سورہے ہوں ان کو سلام نہ کیا جائے بلکہصرف جاگنے والوں کو سلام کریں چنانچہ حضرت مقداد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مروی ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رات کو تشریف لاتے تو سلام کہتے ۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسونے والوں کو نہ جگا تے اور جوجا گ رہے ہوتے ان کو آپصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سلام ارشاد فرماتے ۔ پس ایک دن حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تشریف لائے اور اسی طر ح سلام فرمایا جس طر ح فرمایا کرتے تھے ۔‘‘( صحیح مسلم ، کتاب الاشربۃ، باب اکرام الضیف وفضل ایثارہ ،  الحدیث ۲۰۵۵، ص۱۱۳۶)

 جلوہ یار ادھر بھی کوئی پھیرا تیرا!

              حسرتیں آٹھ پہر تکتی ہیں رستہ تیرا !           ( ذوق نعت)

        (۲۱)زبان سے سلام کرنے کے بجائے صرف انگلیوں یاہتھیلی کے اشارے سے سلام نہ کیا جائے۔(ماخوذ از بہار شریعت ، حصہ ۱۶، ص۹۲)

          حضرت عمروبن شعیب بواسطہ والد اپنے دادارَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت کرتے ہیں ، نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا : ’’ ہمارے غیر سے مشابہت پیدا کرنے والا ہم میں سے نہیں ، یہود ونصاریٰ کے مشابہ نہ بنو ، یہودیوں کا سلام انگلیوں کے اشارے سے ہے اور عیسائیوں کا سلام ہتھیلوں کے اشارے سے ۔‘‘

(جامع الترمذی، کتاب الاستئذان، باب ماجآء فی کراہیۃ اشارۃ الید بالسلام،  الحدیث۲۷۰۴، ج۴، ص۳۱۹)

        اگر کسی نے زبان سے سلام کے الفاظ کہے اور ساتھ ہی ہاتھ بھی اٹھادیا تو پھر مضایقہ نہیں ۔‘‘ (احکام شریعت، ص۶۰)

        (۲۲)سلام اتنی اونچی آواز سے کریں کہ جس کو کیا ہو وہ سن لے ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۰)

         (۲۳)سلام کا فوراً جواب دینا واجب ہے ۔ اگر بلا عذر تا خیر کی تو گناہ گارہوگا اور صرف جواب دینے سے گناہ معاف نہیں ہوگا ، تو بہ بھی کرنا ہوگی۔(ردالمحتار مع درمختار ، ج۹، ص۶۸۳)   

          (۲۴) جواب اتنی آواز سے دینا واجب ہے کہ سلام کرنے والا سن لے ۔ (بہارشریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۲)

         (۲۵)غیر مسلم کوسلام نہ کریں وہ اگر سلام کرے تو اس کا جواب واجب نہیں ،  جواب میں فقط’’وَعَلَیْکُمْ‘‘ کہہدیں ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۰)

        (۲۶)سلام کرتے وقت حد ر کوع تک (اتنا جھکنا کہ ہاتھ بڑھائے تو گھٹنو ں تک پہنچ جائیں ) جھک جاناحرام ہے اگر اس سے کم جھکے تو مکروہ ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۲)

            بدقسمتی سے آج کل عام طو ر پر سلام کرتے وقت لوگ جھک جاتے ہیں ۔ البتہ کسی بزرگ کے ہاتھ چومنے میں حرج نہیں بلکہ ثواب ہے اور یہ بغیر جھکے ممکن نہیں یہاں ضرورت ہے ۔ جبکہ سلام کے وقت جھکنے کی حاجت نہیں ۔

        (۲۷)بُڑھیا کاجواب آواز سے دیں اور جوان عورت کے سلام کا جواب اتنا آہستہ دیں کہ وہ نہ سنے ۔ البتہ اتنی آواز لازمی ہے کہ جواب دینے والاخود سن لے ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۰)

        (۲۸)جب دو اسلامی بھائی ملاقات کریں توسلام کریںاوراگر دونوں کے بیچ میں کوئی ستون ، کو ئی درخت یا دیوار وغیرہ درمیان میں حائل ہوجائے پھر جیسے ہی ملیں دوبارہ سلام کریں ۔حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے مرو ی ہے کہ حضور تا جدارمدینہ صلی  اللہ  علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے اسلامی بھائی کو ملے تو اس کو سلام کرے اور اگر ان کے درمیان درخت دیوار یا پتھر وغیرہ حائل ہوجائے اوروہ پھر اس سے ملے تو دوبارہ اس کو سلام کرے ۔‘‘(سنن ابی داؤد ، کتاب الادب ، باب فی الرجل یفارق الرجل۔۔۔۔الخ،  الحدیث  ۵۲۰۰، ج۴، ص۴۵۰)   

         (۲۹)خط میں سلام لکھا ہوتا ہے اس کا بھی جواب دینا واجب ہے اس کی دو صورتیں ہیں ، ایک تو یہ کہ زبان سے جواب دے اوردوسرا یہ کہ سلام کا جواب لکھ کر بھیج دے لیکن چونکہ جوابِ سلام فوراً دینا واجب ہے اور خط کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ تاخیر ہوہی جاتی ہے لہٰذا فوراً زبان سے سلام کا جواب دے دے ۔اعلیٰ حضرت قدس سرہ جب خط پڑھا کرتے تو خط میں جو ’’السلام علیکم ‘‘لکھا ہوتا، اس کا جواب زبان سے دے کر بعد کا مضمون پڑھتے ۔  (ماخوذ ازبہار شریعت، حصہ ۱۶ ، ص۹۲)

        (۳۰)اگر کسی نے آپ کو کہا ، ’’ فلا ں کو میرا سلام کہنا ‘‘ تو آپ خود اسی وقت جواب نہ دے دیں ۔ آپ کا جواب دینا کوئی معنی نہیں رکھتا بلکہ جس کے بارے میں کہا ہے اس سے کہیں کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے ۔

         (۳۱)اگر کسی نے آپ سے کہا کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے ۔

 اگر سلام لانے والا اوربھیجنے والا دو نوں مردہوں تو یوں کہیں :عَلَیْکَ وَ علیہ السلام اگر دونوں عورتیں ہوں تو کہیں عَلَیْکِ وَ عَلَیْہَا السَّلَام

  اگر پہنچانے والا مرد اور بھیجنے والی عورت ہوعَلَیْکَ وَ عَلَیْہَا السَّلَام

 

صَلَّی اللہُ علیہ وسلم نے  گر پہنچا نے والی عورت ہو اور بھیجنے والا مرد ہوعَلَیْکِ وَ علیہ السلام ۔ (ان سب کا ترجمہ یہی ہے ’’ تجھ پر بھی سلام ہو او ر اس پر بھی‘‘)

        (۳۲)جب آپ مسجد میں داخل ہوں اور اسلامی بھائی تلاوتِ قرآن، ذکرودرود میں مشغول ہوں یاا نتظارِ نماز میں بیٹھے ہوں ان کو سلام نہ کریں ۔ یہ سلام کا موقع نہیں نہ ان پر جواب واجب ہے ۔  (الفتاویٰ الہندیہ ، کتاب الکراہیۃ، باب السابع فی السلام وتشمیت العاطس، ج۵، ص۲۲۵)

         امامِ اہلِسنّت ، مجددِ دین وملت شاہ مولانا احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فتاویٰ رضویہ جلد 23صفحہ 399 پر لکھتے ہیں : ذاکر پر سلام کرنا مطلقًا منع ہے اور اگر کوئی کرے تو ذاکر کواختیار ہے کہ جواب دے یا نہ دے۔ ہاں اگر کسی کے سلام یا جائز کلام کا جواب نہ دینا اس کی دل شکنی کا موجب(یعنی سبب) ہو تو جواب دے کہ مسلمان کی دلداری وظیفہ میں بات نہ کرنے سے اہم واعظم ہے۔

        (۳۳) کوئی اسلامی بھائی در س وتدریس یا علمی گفتگویا سبق کی تکرار میں ہے اس کو سلام نہ کریں ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۱)

        (۳۴)اجتماع میں بیان ہو رہا ہے، اسلامی بھائی سن رہے ہیں آنے والاسلام نہ کرے۔

        (۳۵)جوپیشاب، پاخانہ کر رہاہے ، یاپیشاب کرنے کے بعد ڈھیلا لئے جائے پیشاب سکھانے کے لئے ٹہل رہا ہے ، غسل خانے میں برہنہ نہا رہا ہے ، گانا گار ہا ہے ، کبوتراڑارہا  ہے یاکھانا کھارہا ہے ان سب کو سلام نہ کریں ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۱)

        (۳۶) جن صورتوں میں سلام کرنا منع ہے اگر کسی نے کر بھی دیاتو ان پر جواب واجب نہیں ۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۱)

        (۳۷)کھانا کھانے والے کو سلام کردیا تو منہ میں اس وقت لقمہ نہیں توجواب دے دے ۔

        (۳۸)سائل(بھکاری) کے سلام کاجواب واجب نہیں ( جبکہ بھیک مانگنے کی غر ض سے آیا ہو)۔(بہار شریعت، سلام کا بیان، حصہ ۱۶، ص۹۰)

اے ہمارے پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں سلام کی بر کتو ں سے مالا مال فرما ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

 ٭٭٭                    

    


Previous
Next Post »

Featured Post

اسلام کی سچی تعلیم

    🌹بسم اللہ الرحمن الرحیم 🌹 ...